ڈسٹرکٹ و سیشن کورٹ اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں نور مقدم کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری کی گئی میڈیا وضاحت پر اظہار ناپسندیدگی کیا ہے۔
نور مقدم قتل کیس کی بدھ کو ہونے والی سماعت کے آغاز میں ہی وکیل اسد جمال نے عدالت سے کہا کہ جو وضاحت پولیس کی جانب سے جاری ہوئی کیا اسے ریکارڈ کا حصہ بنا دیا جائے؟
اس پر ایڈیشنل جج عطا ربانی نے استفسار کیا کہ ’کون سی وضاحت اور کب جاری ہوئی ہے؟‘ پبلک پراسیکیوٹر حسن عباس نے کہا کہ ’میڈیا کی باتیں میڈیا تک ہی رہنے دیں۔ میڈیا پر تو بہت کچھ رپورٹ ہوتا ہے۔ آئی جی صاحب نے یہ وضاحت نہیں دی، پولیس کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر آئی تھی۔‘
ایڈیشل سیشن جج عطا ربانی نے کہا کہ ’میں اپنے مزاج کا بندہ ہوں، میں اس طرح نہیں کرتا، دیکھ لیتا ہوں کہ آئی جی نے کیوں وضاحت دی۔‘ عدالت نے پبلک پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ آئی جی کو بتائیں زیر التوا کیس میں ایسی وضاحت نہیں دے سکتے۔
پوری سماعت میں ظاہر جعفر منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے رہے
بعد ازاں عدالت نے ملزمان کو بخشی خانہ سے کمرہ عدالت لانے کی ہدایت کی۔ ملزمان کو کمرہ عدالت لایا گیا، ظاہر جعفر ہتھکڑیوں میں پولیس کے حصار میں لائے گئے، آج بھی ظاہر جعفر قدموں پہ چل کر آئے لیکن وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے رہے اشارے کرتے رہے، لیکن بڑبڑاہٹ کی سمجھ نہیں آئی۔
نور مقدم کیس میں شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’آج کی سماعت میں ملزم کا بیان بھی سب کے درمیان طے ہوگیا ہے۔ جج نے حکم دیا ہے کہ دو فروری سے پہلے ملزمان کے بیانات کے لیے سوالنامہ بھی ملزمان کے وکلا کے حوالے کیا جائے۔ آئندہ سماعت پر ملزمان کا ضابطہ فوجداری دفعہ 342 کے تحت بیان ہو گا۔ جس کے بعد کارروائی مکمل ہو جائے گی۔‘
شاہ خاور نے مزید بتایا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت ملزمان کو دو آپشن دیے جائیں گے کہ وہ حلفاً کچھ کہنا چاہتے ہیں یا بیان دینا چاہتے ہیں، جو عمومی طور پر ملزمان نہیں کرتے۔ دوسرا آپشن یہ دیا جاتا ہے کہ اپنے دفاع میں کوئی گواہ یا دستاویز پیش کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس صورت میں موقع دیا جاتا ہے اگر پیش نہیں کرنا چاہتے تو اس کے بعد دونوں اطراف کے وکلا حتمی دلائل دیں گے جس کے بعد کیس کا فیصلہ آ جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ کیس میں استغاثہ کی طرف سے اٹھارہ گواہ عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔
تفتیشی افسر عبدالستار پر وکلا کی جرح
ملزمان افتخار،محمد جان اور جمیل کے وکیل سجاد احمد بھٹی کے سوالات کے جواب میں تفتیشی افسر عبدالستار نے بتایا کہ ’ایس او پیز کے مطابق ہومی سائیڈ ہی قتل کے کیسز کی تفتیش کر سکتا ہے۔ نقشے پر خاکہ میرا بنا ہوا ہے اس پر تحریر میرے ماتحت نے میری ہدایت پر لکھی ہے۔‘
تفتیشی افسر نے کہا کہ نقشے کے خاکے میں مین گیٹ کے ہونے کا ذکر نہیں کیا۔
’کیا کرائم سین کے بننے والے خاکے میں شریک ملزمان ظاہر کیے گئے؟‘ اس سوال کے جواب میں تفتیشی افسر نے کہا کہ ’ملزمان افتخار،محمد جان اور جمیل کی موجودگی بھی خاکے میں ظاہر نہیں کی گئی۔‘ انہوں نے مزید بتایا کہ’20 اور 21 جولائی کی درمیانی رات کو میں نے اور شوکت مقدم نے سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی، ملزمان افتخار،محمد جان اور جمیل ایف آئی آر میں نامزد نہیں تھے۔ 23 جولائی تک مدعی نے شریک ملزمان افتخار،محمد جان اور جمیل کے خلاف درخواست نہیں دی، 24 جولائی کو دی۔‘
سوال کیا گیا کہ نور مقدم کا موبائل فون کب تک کام کر رہا تھا؟ تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ’ 18 جولائی سے 20 جولائی صبح دس بجے تک نور مقدم کا موبائل کام کر رہا تھا۔ ریکارڈ کے مطابق نور مقدم کو فون اور میسجز آتے رہے ہیں اور وہ بھی کرتی رہی ہیں۔‘
تفتیشی افسر نے مزید بتایا کہ ’نور مقدم نے 18 جولائی سے 20 جولائی تک ون فائیو یا تھانے میں کوئی اطلاع نہیں دی۔ سی ڈی آر کے مطابق نور مقدم نے کسی قریبی کو کسی خطرے سے متعلق میسج نہیں کیا۔‘ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’کیس کا کوئی چشم دید گواہ سامنے نہیں آیا۔‘
تھراپی ورکس کے وکیل اکرم قریشی نے تفتیشی افسر عبدالستار پر جرح کی۔ تھراپی ورکس کے وکیل اکرم قریشی کی جرح کے دوران تفتیشی افسر نے بتایا کہ ’جو بیان دئیے گئے وہی لکھے ہیں کم یا زیادہ کچھ نہیں کیا۔ جو بیان ملزمان کے وکلا کے پاس ہے اس کا مجھے نہیں پتہ کہاں سے انہوں نے کاپی لی۔‘
تفتیشی افسر نے بتایا کہ ’قتل کی انفارمیشن ملی تو میں آبپارہ دفتر میں تھا وہاں سے تھانہ کوہسار گیا۔ اس وقت نائب محرر نے مجھے بتایا کہ ابھی ایف آئی آر نہیں ہوئی۔ ایس او پیز کے مطابق ہم براہ راست ایف آئی آر نہیں دیتے۔‘
جائے وقوعہ کے حوالے سے انہوں نے جرح کے دوران بتایا کہ ’بشارت اے ایس ائی جب وہ وہاں پہنچا تو میں وہاں موجود تھا لیکن ساڑھے نو کے بعد کا وقت تھا، میں پہنچا تو زبیر مظہر اور ہمارے ملازمین نے ظاہر جعفر کو پکڑا ہوا تھا۔‘
تفتیشی افسر نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ’ڈی وی آر میں نظر نہیں آیا کہ تھراپی ورکس کے ملازمین باندھ کر ظاہر جعفر کو نیچے لائے۔ ڈی وی آر میں یہ بھی نظر نہیں آیا کہ تھراپی ورکس ملازمین ظاہر جعفر کو پولیس کی گاڑی میں ڈال رہے ہیں۔‘